مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان "ناصر کنعانی" نے آج ایک پریس کانفرنس میں نئے سال کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: بعض علاقوں بالخصوص فلسطین میں عیسائی برادری نے فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کرسمس کی تقریبات معطل کر دی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ اسرائیلی حکومت ان دنوں اپنے جرائم سے باز نہیں آرہی اور غزہ میں وحشیانہ قتل عام کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہاں تک کی حضرت عیسی ع کی شب ولادت کو بھی فلسطینیوں کے قتل عام کی دردناک تصاویر منتشر کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی حکومتی ذرائع سے شائع ہونے والی رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ بمباری میں ایک ہی وقت میں 70 سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے۔
کنعانی نے مزید کہا کہ ان جرائم سے یہ واضح ہوا کہ صیہونی حکومت کسی بھی دینی تعلیمات اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہیں کرتی اور عالمی برادری کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیانات کے بجائے عملی اقدام کرے اور نہتے فلسطینی عوام کے قتل عام کو روکے۔
انہوں نے فلسطین کی صورت حال پر مشاورت کے نتائج کے بارے میں کہا کہ بدقسمتی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے منظور ہونے والی قرارداد کے ویٹو کے ساتھ، امریکہ اسرائیلی رجیم کے مکمل حمایتی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکی حکومت نے قرارداد میں جنگ بندی کی شق شامل کرنے سے روکنے کے ساتھ قرارداد کی منظوری کے لیے ووٹنگ سے بھی پرہیز کیا۔
کنعانی نے مزید کہا کہ امریکی حکومت نے ثابت کیا کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگ کو جاری رکھنے کے لیے صیہونی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم نے غزہ کی پٹی میں انسانی امداد بھیجنے کے حوالے سے اپنے خیالات کو واضح طور بیان کیا کہ غزہ میں مسلسل بمباری کے دوران انسانی امداد بھیجنا ممکن نہیں۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ کے لیے انسانی امداد بھیجنے کی قرارداد کو بے معنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری اور 153 ممالک نے اب تک اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے جس میں جنگی جرائم کی روک تھام کی شق موجود ہے۔
انہوں نے صیہونی رجیم کے لبنانی حکام کو جنگ بندی کے سلسلے میں بھیجے گئے پیغام کے بارے میں کہا کہ لبنانی حکام نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت یا تو اپنے حالات کو نہیں سمجھتی، یا پھر منصوبہ بند اقدامات کی تلاش میں ہے۔ جب کہ وہ ہر روز اپنے فوجیوں کے تابوت کے علاوہ اپنے خاتمے کا تابوت بھی خود اپنے ہاتھوں سے تیار کر رہی ہے۔
اسرائیلی رجیم کو سمجھنا چاہیے کہ اس نے 2006 میں لبنان کے خلاف جو جارحیت انجام دی اس سے نہ صرف اس کا ہدف حاصل نہیں ہوا بلکہ مزاحمت کو مزید تقویت ملی۔
آپ کا تبصرہ